فیروز خان/ دیوبند
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضا حیدر کے انتقال پر ملال کی خبر ملتے ہی ادبی حلقے مغموم ہو گئے ،ان کے انتقال پر شعرا ئ، ادباءو دانشوران نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ان کی ادبی و انتظامی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ۔اتر پردیش اردو اکیڈمی کے سابق چیئر مین و ماہر تعلیم ڈاکٹر نواز دیوبندی نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم نہایت سادہ اور منکسرالمزاج طبیعت کے مالک تھے، اللہ نے انھیں انتظامی صلاحیتوں سے بھی سرفراز کیا تھا ان کی ہر تحریر میں فکری جہت سے کوئی نہ کوئی ایسا پہلو ضرور ہوتا تھا جس تک عام ذہن کی رسائی ممکن نہیں۔ وہ اردو ادب کے بڑے عالم ہونے کے ساتھ غالب انسٹی ٹیوٹ کے خیر خواہ اور راہنما بھی تھے۔
سابق درجہ حاصل ریاستی وزیر وجامعہ طبیہ دیوبند کے سکیٹری ڈاکٹر انور سعید نے اپنے شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رضا حیدر کا سانحہ ارتحال پوری اردو دنیا کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے وہ کئی اہم کتابوں کے مصنف ہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر رضا حیدرجیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ میری دعا ہے کہ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے خدا وند کریم جلد از جلد اس کو پر کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے میں اپنی طرف سے اور جامعہ طبیہ دیوبند کے تمام اراکین کی جانب سے ان کے پسماندگان کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ جامعہ طبیہ کے تمام اراکین ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
معروف افسانہ نگار و شاعر حسرت دیوبندی نے کہا کہ کئی مرتبہ ڈاکٹر رضاءحیدر کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ اظہار کم اور کام زیادہ کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ ان کے گرد جن احباب کا مجمع تھا ان میں اپنے عہد کے غیر معمولی لوگ شامل تھے۔ یہ سب مل کے ان کی شخصیت کو پورا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک اور دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے اردو ادیبوں کو انھوں نے ایک ساتھ جوڑ کے منصوبہ بند طریقے سے علمی کام انجام دیے۔ جس سے اس ادارے کو ایک خاص وقار حاصل ہوا۔ ایک انسان کے طور پر اور ایک منتظم کی حیثیت سے انھوں نے اپنی یادوں کے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ آج اگر غالب انسٹی ٹیوٹ بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت رکھتا ہے، تو اس کی بنیاد میںڈاکٹر رضاءحیدر کا خلوص اور عمل شامل ہے۔ معروف ادیب و قلم کار سید وجاہت شاہ نے کہا کہ رسمی طور پر تعزیتی کلمات ادا کرنا یوں بھی مشکل ہوتا ہے اور وہ بھی جب کسی ایسے شخص کے سلسلے میں ہو، جس سے دلی لگاو ہو تو یہ اور آزمائشی ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر رضاءحیدر جلسوں میں کم بولتے تھے، لیکن بہت دیر کے بعد جب وہ کچھ گفتگو کرتے تھے تو بڑی اہم بات کہتے تھے۔ ڈاکٹر رضاءحیدر کے ڈائرکٹر رہتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ میں کئی قومی اور بین الاقوامی سطح کے سمینار منعقد ہوئے، جس میں شرکت کا موقع ملا ،مزکورہ سیمیناروں سے اردو ادب میں ایک فضا قائم ہوئی،جس کا اردو ادب کو بہت فیص پہنچا ،غالب انسٹی ٹیوٹ کا کوئی تصور میرے خیال میں ان کے بغیر نہیں ابھرتا۔ اردو کے ساتھ ان کا جو والہانہ لگاو تھا، وہ آخر دم تک برقرار رہا۔ ان کے انتقال کی خبر سے دل کو گہرا صدمہ پہنچا ہے ،اللہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام اور پسماندگان کو صبر جمیل عطاءفرمائے ۔الحیا ء پبلیکیشنز کے ڈائرکٹر و محقق عبداللہ عثمانی نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ان کا سلوک ہر انسان کے ساتھ نہایت مشفقانہ تھا۔ وہ جتنی کم گفتگو کرتے تھے اس کی تلافی اپنے کام سے کر لیا کرتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی شخصیت میں مختلف قسم کے اوصاف مجتمع ہو گئے تھے۔ وہ اچھے ادیب اور منتظم کی حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے۔
عبداللہ عثمانی نے کہا کہ ڈاکٹر رضاءحیدر بہ حیثیت انسان تہذیبی روایتوں کے حامل تھے، لیکن ان کی جو بات مجھے سب سے زیادہ اہم معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ ادیبوں اور عالموں کی ان کی نگاہ میں بڑی قدر تھی۔ انھوں نے ملک کے مختلف حصوں اور بین الاقوامی سطح کے ادیبوں کو غالب انسٹی ٹیوٹ سے جوڑا۔ وہ اچھے ادیب ہونے کے ساتھ اچھے انسان بھی تھے ۔